Friday 10 July 2015

زندگی کا لگان باقی ہے
آخری امتحان باقی ہے
چلتے چلتے زمین ختم ہوئی
اب تو بس آسمان باقی ہے
درد کے بے کراں علاقے میں
حوصلے کی چٹان باقی ہے
دیکھنے آ ، چراغ آنکھوں کے
مرنے والے میں جان باقی ہے
ہو چکے ہیں تمام ملبوسات
ایک لٹھے کا تھان باقی ہے
راستے کے اداس چہرے پر
پائوں کی داستان باقی ہے
آئینے میں کسی کی آنکھیں ہیں
اب بھی دام گمان باقی ہے
سحـــر بھی آئی تو لائی اسی چـــراغ کی موت
جو ساری رات سُلگـــتا رہا سحـــر کے لیئے
کچھ تیرے موسم ہی مجھے راس نہ آئے
کچھ میری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
پھو لو ں کا بکھرنا تو مقد ر ہی تھا لیکن
کچھ ہواؤں کی سیا ست بھی بہت تھی۔
اللہ گھر پہ نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
بہت پرانے وقتوں کی بات ہے جب امام مالک کا وجود تھا ، نہ ابھی امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل پیدا ہوئے تھے ، نہ صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی۔ ابن ماجہ جیسی کتب وجود میںآئی تھیں، نہ ہی کہیں دیو بندی ، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث نامی کوئی مکتبہ فکر پایا جاتا تھا اس وقت بھی ایک دین کامل پایا جاتا تھا جسکے حامل ،، مسلما ن،، کہلاتے تھے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس دور میں نہ سکولز تھے نہ کالجز اور نہ یو نیورسٹیاں ، نہ مطبع خانے اور نہ یو نیورسٹیاں ، پھر بھی مسلمان پوری دنیا میں صاحبان علم و دانش کہلاتے تھے۔
یہاںتک کہ ،، مسلمانوں کے ملک میں بھانت بھانت کی سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے اداروں کا بھی کوئی وجود نہیں تھا ، انکے حکمران مٹی گارے اور گھاس پھوس کی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ لیکن انکے ملک کا نظام مثالی تھا ہر طرف عدل و انصاف اور امن و امان کا دور دورہ تھا ، عورتیں اور بچے تن تنہا دور دور کے سفر کرتے تھے لیکن انہیں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا تھا۔یہی نہیں بلکہ یہ قوم اس دور کی ،، سپر پاور،، تھی، اور پوری دنیا کی نگہبانی کا فریضہ سر انجام دیتی تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی ہر بستی میں اایک یا دو ہی مساجد کچی اور بلکل سادہ سی ہوتی تھیں، نہ سنگ مر مر کا فرش ، نہ دیواروں پر نقش و نگار ، نہ بلند وبالا مینار، نہ رنگ برنگے منقش قالین اور صفیں، پھر بھی لوگ ان مساجد کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ لوگوں کو پکڑ پکڑ کرمساجد میں لانے کے لیے کسی جماعت کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
کمال یہ ہے کہ ،، اللہ ،، ہر وقت اپنے نمائیندوں کے ساتھ واقعی وہاں موجود ہوتا تھا۔ کسی کا کوئی بھی مسلہ ہو ، لین دین کا تنازعہ ہو ، یا کسی کے ظلم و ستم کا شکوہ ، کسی راہبری اور رھنمائی کی ضرورت ہو یا روزی روٹی کا مسئلہ، کوئی سماجی الجھن ہو یا کوئی معاشرتی مسئلہ، لوگ سیدھے اللہ کے گھر کی طرف دوڑتے،انکی الجھنوں کو سلجھنے میں بس اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا کہ گھر سے مسجد میں جانے میں۔
اس دور میںمیڈیا بھی نہیں تھا، ریڈیو ،ٹیلیویڑن، ٹیلیفون، لاو ¿ڈ سپیکر کچھ بھی تو نہیں تھا ، نہ مبلغین کی بھرمار، نہ بڑے بڑے مذہبی جلسے، نہ قوالی اور حمد و نعت کی بڑی بڑی محافل، نہ ذکر و تلقین کے بڑے بڑے فورم ،نہ بڑی بڑی خانقاہیں اور مدرسے ، پھر بھی ہر شخص نہائت متقی، صالح اور راست گو تھا۔
اس دور میں رنگ برنگی روشنائیوں اور سنہری حروف میں لکھے ہوئے قراان پاک کے نسخے بھی نہیں تھے ، بلکہ سادہ کاغذ پہ بھدی سی لکھائی میں لکھے ہوئے نسخے بھی گراں یاب تھے پھر بھی ہر شخص مجسم قرآن تھا قرآن کا چلتا پھرتا عملی نمونہ ! اس دور میں لوگ کاغذوں پر لکھے حروف کی بجائے ایک دوسرے کو دیکھ کر قرآن پڑھتے اور سیکھتے تھے۔
پھر بہت بعد کی بات ہے، باد شاہتیں وجود میں آئیں، ،حکمرانوں کیلیے شاہی محلات تعمیر ہوئے،امن و امان اور عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے بڑے بڑے منظم ادارے اوردین و مذھب کی گتھیاں سلجانے کے لیے بڑے بڑے مکاتیب فکر وجود میں آ گئے۔دین کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے بڑی بڑی درسگاہوں اور خانقاہوں نے جنم لیا ، درس و تبلیغ کے لیے مبلغین کی افواج نظر آنے لگیں ، ان گنت علم و دانش کی درسگاہیں، یو نیورسٹیاں بھی ہرطرف دکھائی دینے لگیں۔ مسلمانوں کی تعداد بھی لاکھوں کروڑوں تک جا پہنچی لیکن علم و دانش، عدل و انصاف، امن و امان، باہمی محبت ،بھائی چارہ ، اور قرآنی ضابطہ حیات غائب ہو گیا۔ ہر طرف بد امنی ، بد انتظامی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا، دینداری اور تقویٰ کی جگہ عیاری اور مکاری نے لے لی۔ حکمرانوں نے عوام الناس کو غلام بنا لیا۔
سادہ اور کچی مساجد گرا کر نہائت عالیشان پرشکوہ عمارتیں تعمیر کر لی گئیں ، انہیں نقش و نگار ، سونے چاندی کی تاروں اور بیش قیمت موتیوں سے مزین کیا گیا، سنگ مر مر کے فرش پر زرق برق قالین بچھائے گئے، آرام و راحت کے حصول کے لیے اسمیں ائیر کنڈیشنڈ اور ہیٹر نصب کر دیے گئے۔
لیکن لوگوں میں مساجد سے بے اعتنائی بڑھ گئی،اب لوگوں کو پکر پکڑ کر لانے کے لیے مذہبی جتھے بنائے گئے ، ترغیب دینے کے لیے یہاں طرح طرح کے تہوار بھی منائے جاتے ہیں جن میںمٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں ، عمرے کے ٹکٹ اور نقد انعا مات بھی دیے جاتے ہیں جس سے وقتی گہما گہمی تو نظر آتی ہے لیکن پھر وہی ویرانی !لوگوں کی اکثریت مساجد سے دور ہی رہتی ہے کیونکہ یہانںایک بڑی کمی نظر آتی ہے وہ یہ کہ اب لوگوں کو ،، اللہ ،، اور اسکے نمائیندے یہاں نہیں ملتے ۔انکا کوئی مسلہ یہاں اکر حل نہیں ہوتا۔ ان مساجد میں زیادہ تر تا لا پڑا رہتا ہے ، جو دن میں پانچ بار کھلتا ہے ، کچھ لوگ آتے ہیں لیکن انہیں یہاں اللہ اور اسکے نمائیندوں کی بجائے ،، زر خرید مولوی ،، ملتا ہے ، جو انکا کوئی ذاتی، گھریلو، خاندانی سماجی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور دینی مسئلہ حل کرنے کی استعداد اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب انہیں ،، اللہ اپنے گھر پر،، نہیں ملتا تو لوگ مایوس ہو کر لوٹ جاتے ہیں۔
وہ اپنے گھرمیں اب نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بھی کوئی اور گھر دیکھتے ہیں !
فا عتبرو یا اول الا بصار ! آپ نے اسے نہیں پڑہا تو کچھ نہیں پڑہا۔
وہ ایک بہت خوبصورت، رنگ برنگی پتنگ تھی ۔ اسکی اڑان بھی دیکھنے کے قابل تھی ۔ وہ بڑے ناز و نخرے کے ساتھ ، نیلے آسمان کے وسعتوں میں اڑ رہی تھی۔ بہت اونچی، بڑے بڑے قد آور درختوں کی چوٹیوں سے بھی بہت اوہر ۔خود کو اتنی بلندی پر دیکھ کر وہ فخرو غرور سے اور تن گئی ۔ ،، ہے کوئی جو میری بلندی پرواز کا مقابلہ کر سکے ؟ ،، وہ خوشی سے چلائی۔ وہ بڑے ناز و انداز سے اٹھلا اٹھلا کر جھوم رہی تھی ۔ وہ کبھی ادھر جاتی کبھی ادھر لیکن ڈوری نے اسے تھام رکھا تھا جسکے باعث وہ ایک محدود ایریا میں ہی پرواز کر سکتی تھی۔ ،، کاش کہ یہ ڈوری نہ ہوتی تو میں آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتی !،، وہ بڑ بڑائی۔ اسے خود سے بندھی ڈوری بہت بری لگ رہی تھی، جسنے اسکی آزادی سلب کر لی تھی ۔اسے ڈوری پر سخت غصہ آیا، اس نے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے جھٹکے لینے شروع کر دیے، تاکہ اس سے نجات حاصل کر سکے جو اسکی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ اسکی کوشش کامیاب رہی اور ڈور ٹوٹ گئی ! ۔ ،،بو کاٹا ! ،، وہ خوشی سے چلائی،، اب دیکھنا میری پرواز !،، اسنے اور اوپر اڑنا چاہا ، لیکن یہ کیا ؟؟؟ وہ اوپر جانے کی بجائے نیچے گرنے لگی، اسنے خود کو سنبھالنے اور اڑتے رہنے کی بہتیری کوشش کی لیکن بے سود۔ ۔ وہ مسلسل نیچے گرتی چلی گئی او ر آخر کار ایک گندے پانی کے جوہڑ میں جاگری، اب وہ بہت پچھتائی ،اسے احساس ہوا کہ وہ ڈوری ہی تو تھی جو اسے آسمان کی بلند یو ں تک لے گئی، اور اسی کی بدولت ہی تو وہ پرواز کر رہی تھی، ڈور کی پکڑ ، نے ہی تو اسے نیچے گرنے سے بچا رکھا تھا، لیکن اس نے اپنے احمقانہ غرور اور جہالت سے اپنا عظیم سہارا اور اپنی قوت پرواز کوخود ہی گنوا دیا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا؟؟ وہ گندے پانی کی سطح سے ٹکرائی اور اس گندے پانی کو اپنے وجود میں جذب کرتے ہوئے آخر کار غلاظت بھرے جوہڑ کی تہہ میں غرق ہو گئی ۔ فاعتبرو یا اول لا بصار ! اس میں سبق ہے عقلمندوں کے لیے !
ﻭﮦ ﺩﺷﻤﻦِ ﺟﺎﮞ، ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﺍﺏ ﮐِﺲ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ، ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﺍُﺗﺮﺍ ﮨﮯ ﺭﮒ ﻭ ﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩِﻝ ﮐﭧ ﺳﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺯﮨﺮِ ﺟُﺪﺍﺋﯽ، ﮐﮧ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺖ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺑﺮِ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺷﮩﺮ، ﯾﮩﯽ ﺷﮩﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﺗِﺘﻠﯽ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﻣﯿﮟ، ﮐﻮﺋﯽ ﭘُﮭﻮﻝ ﺳﺎ ﺑﭽّﮧ !
ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﺍﺏ ﺍﮔﻠﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻣِﻠﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﭘُﻮﭼﮭﯿﮟ
ﺟﻮ ﺣﺎﻝ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮯ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﮨﺮ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﻓﺴُﺮﺩﮦ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻓﺮﺍﺯ ﺍﻧﺠﻤﻦ ﺁﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ
ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺮﺍ
وقتِ سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں
بکھرا ہُوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں
غیروں نے جو سلوک کِیا اس کا کیا گلہ
پھینکے ہیں جو دوستوں نے، وہ پتھر سمیٹ لوں
کل جانے کیسے ہوں گے کہاں ہوں گے گھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لوں
زندگی کی داستان کرب و بلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہمدم و دمساز !
یہ کیسا تھا تیری چاہت کا سلاب ؟
کہ
میرا بھولپن، میرا بچپن، میری سادگی،
میری سچائیاں ، میری محبت کی داستانیں ،میری وفا ئیں،
میرے ارمان میرےخواب سب ہی تو
میری ہی آنکھوں سے بہہ گئے !
تیرے قول و قرار ، تیری قسمیں ، تیرے وعدے
سب سراب تھے، فریب زندگی کی طرح !
اور وہ
جن کے آنے سے زندگی کی امید ہوئی
وہ لوٹے تو موت کا سکوت چھوڑ گئے ۔
جو دل کی دھڑکن تھے ۔دم گھونٹ گئے
جنہیں تریاق سمجھا زہر نکلے
جو کنارے تھے وہ بے رحم لہروں کے حلیف ہوئے
یہ کیسی شب ہے؟ کہ چاند بھی ہے اور ستارے بھی !
لیکن ہر طرف تاریکی ہی تاریکی !
شائد یہ حسرت و یاس کے بادل ہیں
کہ ستارے انکی اوٹ سے چھپ چھپ کر چمکتے بجھتے
ہیں ، سامنے نہیں آتے ۔
ہاں ہاں !
یہ بے نام زندگی تمام ہوئی !
آ نسؤوں نے آرزوؤں کو غسل دیا ۔
حسرتوں نے ارمانوں کو کفن پہنایا
خواہشوں نے پھولوں کی چادر چڑھائی ۔
جنازہ تو بس ایک تکلف تھا
دفن تو تم کب سے کر چکے تھے !
دلوں پہ دستک دینے والو!
کندھوں پر جانے کا وقت تم پر بھی آئے گا
کہ کچھ خواب کچھ آرزؤئیں ، کچھ بے لگام خواہشیں
تمہاری بھی تو ہیں !
جنہین ایک دن اسی طرح
بےوفائی کے کفن میں دفنایا جانا ہے
کہ یہی تم جیسوں کے لیے دستور حیات ہے
لکھ رکھو ! کہ در منزل پہ ، بازی مات ہے
بلبل کے بچے اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
بہار آئی تو انگور کی سوکھی ٹہنیوں سے سے جیسے سبزہ پھوٹ کر نکلا ، ہر طرف نرم ونازک سبز ٹہنیوں کا جال سا بچھ گیا، پھر ان پر پھولوںکے گچھے نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری بیل انگور کے خوشوں سے لد گئی۔ ایک صبح میری بیٹی نے میری توجہ بلبل کے ایک جوڑے کی طرف دلائی جو کہ انگور کی بیل پر آشیانہ بنانے میں مصروف تھا۔ نر اور مادہ بلبل نے بڑی محنت کے ساتھ گول سا گھونسلہ بنایا اور بھر اسےمیں مخملیں روئیں کی گدی دار تہہ بچھائی ۔ ہم باپ بیٹی روزانہ بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ منظر دیکھتے اور انکی مہارت کی داد دیتے۔
ٓٓٓٓآشیاں بن گیا،تو دو انڈوں نے اسے رونق اور حرارت بخشی ،اب باری باری ،ایک بلبل ہمیشہ اپنے گھونسلے میں موجود رہتا، کچھ ہی دنوں بعد اسمیں دو چھوٹے چھوٹے بچے نظر آنے لگے ، یہ چھوٹا سا آشیاں اور بھی خوب صورت نظر آنے لگا، اسکی ساری رونق اور حسن و زینت اسکے مکینوںکے دم سے ہی تو تھی ، ورنہ وہ آشیاں تھا ہی کیا، چند تنکے ، آک اور سمبل کی روئی کی ایک تہہ !
جیسے ہی انڈوںسے بچے نکلے اس آشیاں کی چہل پہل اور رونقیں اور بھی بڑھ گئیں، ایک بلبل جاتا اور اپنی چونچ میں خوراراک بھر کر لاتا، دوسرا اسے آتا دیکھ کر پھر سے اڑ جاتا ، آنے والا اپنی لائی ہوئی خوراک اپنے بچوں کے حلق میں انڈیل دیتا، جیسے ہی وہ اس کام سے فارغ ہوتا دوسرا بلبل خوراک لے کر آ پہنچتا۔ یہ ننھے منے چوزے بھی بلا کے پیٹو تھے ، انکے پوٹے ہر وقت پھولے اور ٹھونس ٹھونس کر بھرے نظر آتے تھے ، لیکن پھر بھی انکی بھوک نہیں مٹتی تھی ، ہم نے تو ہر وقت ہی انکے ماں باپ کو انکے لیے خوراک ڈھونے میں ہی مصروف پایا۔ ہم بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھتے اور بلبلوں کی محنت اور خالق کائنات کی رزاقیت کی داد دیتے۔
ان پرندوں نے نہ کوئی فیکٹریاں لگائی ہیں ، نہ بڑے بڑے شاپنگ پلازے بنائے ہیں، نہ خوراک کے گودام بنائے ہیں ۔انہیں رزق کے لیے کسی کی غلامی نہیں کرنی پڑتی، کہیں دھکے نہیں کھانے پڑتے، جدھر نکلتے ہیں رزق کے انبار انکے منتظر ہوتے ہیں ، گوشت ، پھل ، پھول اور سبزیاں۔ ہر ایک کو اسکی ضرورت اور منشاءکے مطابق ہر چیز نہائت آسانی سے دستیاب ہے۔ اسکے برعکس کروڑوں انسان بھوک سے مرتے ہیں یا نان جویں کو ترستے ہیں، روٹی کے چند لقموں کی خاطر اپنی عزت ، وقار اور ضمیر سب کچھ بیچ دیتے ہیں۔ پھر بھی انہیں حسب ضرورت ،، روزی روٹی،، نصیب نہیں ہوتی۔فرق صرف یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی روزی روٹی کی ذمہ داری اللہ کو سونپ رکھی ہے وہ عیش کر رہے ہیں اور جس نے
اپنی ،، روزی روٹی کا ٹھیکہ ،، خود اٹھا رکھا ہے بھوکا مرتا ہے، یہ انسان روزانہ اپنے ارد گرد موجود ان گنت مخلوقات کو فکر رزق سے بے نیاز ہو کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے لیکن اس چغد کو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔جس دور کے لوگوں کو یہ بات سمجھ آگئی تھی انہوں نے خود کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کر دیا تھا ۔ پھر زمین و اسمان نے ان پر اسی طرح رزق کے دروازے کھول دیے تھے، جس طرح کے دیگر مخلوقات پر آج بھی کھلے ہیں۔ مﺅرخین مسلمانوں کے اس سنہری دور کی بابت لکھتے ہیں کہ رزق کی اتنی فرا وانی تھی کہ کوئی محتاج ڈھونڈے سے نہ ملتا تھا۔
ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ گوشت خور لالیاں ان ننھے منے بلبلوں کے آشیانے پر منڈلانے لگیں، مجھے یقین ہو گیا کہ اب بلبل کے بچوں کی خیر نہیں، ہم نے انہیں بہتیرا بھگایا لیکن ہمارے ہٹتے ہی وہ پھر آ دھمکتیں، ایک دن کیا دیکھا کہ ایک گوشت خور لالی ، بلبل کے آشیاں کے بلکل قریب آ گئی یہ دیکھ کر دونوں بلبل اس پر اتنی دلیری سے جھپٹے کہ ہم ششدر رہ گئے ۔ انہوں نے چونچیں مار مار کر اس لالی کا برا حال کر دیا ۔ اور اسے اس طرح کھدیڑا کے اسے پھر بلبل کے آشیاں کے قریب پھٹکنے کی جراءت نہیں ہوئی۔
کچھ ہی دنوں میں بلبل کے بچوں کے پر نکل آئے۔ ایک دن دیکھا تو انکا گھونسلہ خالی تھا ، نہ بلبل نہ انکے بچے ! یہ دیکھ کر ہمارا دل دھک سے رہ گیے کہ شائد کسی شکاری پرندے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میری بیٹی نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو انہیں ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ قریبی جامن کے پیڑ پر
برا جمان تھے ، ماں باپ انہیں پرواز سکھا رہے تھے ، خود کفیل ہونے کے گر سکھا رہے تھے ، دو چار روز میں یہ کورس بھی پورا ہو گیا اور بلبل کے بچے اپنی منزل کی طرف پرواز کر گئے ، کبھی نہ لوٹنے کے لیے !
اب نہ انہیں اپنے ماںباپ کی یاد ستائے گی نہ ماں باپ کو یہ جانے والے یاد آئیں گے، کہ انکے خالق و مالک نے یہی انکی زندگی کا دستور ٹھہرایا ہے اور وہ بلا چوں چراں اس پہ عمل کرتے ہیں انکے احساسات اور جذبات بھی اپنے خالق و مالک کی رضا کے مطابق ڈھلے ہوئے ہیں۔ اس اطاعت کے بدلے میں قدرت نے انہیں فکر رزق سے بے نیازی سمیت جن انعامات سے نوازا ہے انسان اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اسکے بر عکس انسان کو انس و محبت کی دولت عطا ہوئی اسے رشتوں ناتوں کو نبھانے اور ربط و تعلق کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ، لیکن یہ ایسا بد بخت ہے کہ لالچ حرص اور ہوس کی خاطر وہ اپنوں کے لیے ایسا بیگانا بن گیا ہے کہ جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔ حسد، کینہ بغض اور دشمنی کے مستقل جذبات انسانوں کے سوا کسی جاندار میں نہیں پائے جاتے ۔ جانوروں میں ہم جو وحشت اور دشمنی کے مظاہر دیکھتے ہیں یہ وقتی ہوتے ہیں جو کہ اپنی حفاظت اور دوسروں کی بے جا مدا خلت کی بنا پر ہوتے ہیں ۔ فریق مخالف کے نظروںکے سامنے سے ہٹتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ شرف صرف انسان کو ہی حاصل ہوا ہے کہ وہ کینہ اور بغض کو قبر تک ساتھ لیکر چلتا ہے۔اپنے ماں باپ، بہن، بھائی، عزیز اور دوست احباب کو بھی نہیں بخشتا۔ انس و محبت ہی شرف انسانیت ہے ۔ اس شرف سے عاری انسان اپنی ساری زندگی اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرنے میں بسر کر دیتا ہے کہ وہ کتنا غلیظ، گھٹیا اور بد ترین ہے۔ رشتے ناطے اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے، حقیقت یہ ہے کہ انہیں حیوان کہنا ، حیوانوں کی توہین ہے کیونکہ حیوان تو وہی کچھ کرتے ہیں جس کے لیے انہیں تخلیق کیا گیا ہے ۔انسان وہ کچھ کرتا ہے جو اسکے مقصد تخلیق کے منافی ہے۔ قدرت اپنے نظام سے بغاوت اور سر کشی کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔ سو انسان اپنی بغاوت اور سرکشی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
بلبل کے آشیانے کے مکین جا چکے اب انکا گھونسلا اجاڑ پڑا ہے ، زندگی اور حرارت سے محروم ! اسمیں کوئی چہل پہل اور رونق نہیں ، آشیاںکی رونقیں تو مکینوں کے دم سے ہوتی ہیں !
پتھر سلگ رہے تھے کوئی نقش پا نا تھا
ہم اس طرف چلے تھے جدھر راستہ نا تھا
پرچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نا پوچھ
اپنا شریک غم کوئی اپنے سوا نا تھا
یوں دیکھتی ہے گمشدہ لمحوں کے موڑ سے
اس زندگی سے جیسے کوئی واسطہ نا تھا
چہروں پے جم گئی تھیں خیالوں کی الجھنیں
لفظوں کی جستجو میں کوئی بولتا نا تھا
خورشید کیا ابھرتے دل کی تہوں سے ہم
اس انجمن میں کوئی سحر آشنا نا تھ

ہم تو بس خواب ہیں...
کچهہ پل کے لیے دیکهو ہمیں
پهر کسی آنکهہ، کسی نیند
میں آئیں گے نہیں
پهر کسی راہ،کسی موڑ پر
ہم ہوں گے نہیں
ہم تو بس گرد ہیں...
کچهہ دیر میں مٹ جائیں گے
ہم تو خوشبو ہیں..
ہمیں رنگ نہ کوئی دینا
صرف احساس کو چهو کر ہے گزر جانا ہمیں
ہم تو آنسو ہیں..
بہیں گے تو
نہ لوٹیں گے کبهی
اُس میں ،، مَیں ،، بہت ہے
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، میں ،، نہیں !
اج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا ۔۔۔۔۔۔ کسے الہڑ مٹیار دی ونگ ورگا
سوہنی دے چنہان جیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تے ہیر دے جھنگ ورگا
سسی دے تھلاں وانگ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا صاحباں دے سنگ ورگا !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
تُوکرتا ہے دعائیں ہمارےمرنے کی۔۔۔۔۔۔
ہمیں تو نیند بھی اے جان جاں نہیں آتی۔۔۔
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے، جو زمیں کے نہیں..

خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
بہت پختہ مزاج ہے وہ شخص
یاد رکھتا ہے کہ یاد نہیں کرنا...!
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ
ﻟﻔﻆ ﮬﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﻣﯿﺮﮮ
ﺑﮭﭩﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﺑﺪﺭ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ
ﯾﮧ ﺩﻝ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻤﺴﻔﺮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﺍُﺩﺍﺱ ﮨﻢ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﻢ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻏﻢ ﮨﯽ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ
ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮨﻢ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﮭﮯ، ﻣﮕﺮ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﻗﯿﺐ ﺗﮭﮯ
ﺳﺮﮎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﻧﻈﺮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ
ﺧﯿﺎﻝ ﯾﻮﮞ ﺭﮐﯿﮟ ﻣُﮍﯾﮟ ، ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻡ ﺑﮧ ﺩﻡ ﺍُﮌﯾﮟ
ﮔﮭﭩﺎﺋﯿﮟ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ
ﻣﻔﺎﮨﻤﺖ ﭘﮧ ﻏﻮﺭ ﺗﮭﺎ، ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﮐﺎ ﺯﻭﺭ ﺗﮭﺎ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺟﮭﮏ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍِﺩﮬﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺩﮬﺮ
محبت میں بڑی طاقت ہے، آخر جیت جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ شو شہ جس نے چھوڑا تھا خدا غا رت کرے اس کو۔۔۔
خواب آنکھوں میں اب نھیں آتے
نیند لگتی ھے کچھ خفا ہم سے
ﮐﭽﮫ ﻧﺎ ﮐﭽﮫ " ﺷﻮﺭ " ﻣﭽﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺿﺮﻭﺭ !
" ﺩﺭﺩ " ــــــــــــــــ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﮨﮯ
بهلا ہو ان خوابوں کا .. . . . . . . . . ..ہم انہیں دیکھ تو لیتے هیں
ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺐ
ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ…
ﻭﻗﺖ ﺗﮭﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ…
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﺘﯽ…
ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ…
ﯾﺎﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺯﺧﻢ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ…
ﮔﺮﺩ ﮔﺮﺩ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻋﻤﺮ ﮐﭧ ﮨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ…
ﮐﭽﮫ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﺲ
ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯿﮟ ……!!!
درد ہوتا رہا سوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں
تھا اکیلا مرا خُدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں
ترےآنے پہ کھِل اُٹھیں گے سبھی
پھول ،خوشبو ،چمن ،صبا اور میں
ایک مُدٌت سے۔۔۔۔ منتظر ہیں ترے
رات،آنکھیں،یہ دل،دیٌا۔۔۔۔۔۔ اور میں
کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُجڑ نہ جائے جہاں
میں نے یہ بھی نہیں کہا، اور میں ؟؟
تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے کبھی
آئینہ ٹوٹتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں
پھر رات نے سرگم چھیڑا
پھر انگن میں چا ند نی اتری
پھر موتیے کی خوشبو پھیلی
پھر دل نے کہا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اک اس کی کمی !
پھر یاد کے جھونکے مہکے
پھر پا گل ارما ن بہکے
پھر جنت سی لگنے لگی زمیں
پھر دل نے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اک اسکی کمی !
پھر گزرے لمحوں کی باتیں
پھر جگی جگی سی راتیں
پھر ٹھہر گئی پلکوں پہ نمی
پھر دل نے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اک اس کی کمی
مجھے یہ علم نہیں تھا کہ خلق اندھی ہے
کوئی چراغ اب اس رات میں جلانا کیا
وہ آسمان سے گرتا تو ہم اٹھا لیتے
جو گر گیا ہو نظر سے اسے اٹھانا کیا
ذرا بتاؤ تمہیں پھر گلے لگاؤں کیوں
تمہارے پاس ہے باقی کوئی بہانہ کیا
وفا کی آس ہر اک شے سے ہے تمہیں لیکن
جو شے بچی ہی نہیں اس کو آزمانا کیا
ادھر تو آنکھ برستی ہے، دل دھڑکتا ہے
یہ سانحات تمہارے یہاں نہیں ہوتے
وفا کا ذکر چلایا تو ہنس کے بولے وہ
فضول کام ہمارے یہاں نہیں ہوتے
سیاہ رات میں آندھی سوال پوچھے گی
مرے چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترا امتحان باقی ہے
سیاہ رات میں آندھی سوال پوچھے گی
مرے چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترا امتحان باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا !! میں بھی یزیدوں سے گھرا ہوں ہر سو
مجھ کو معلوم ہے کیا شے ہے مسلماں ہونا
ﺗﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ، ﺗﺮﺍ ﻟﮩﺠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺩﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻢ ﺳﻔﺮ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
تجھے زندگی کا شعور تھا، تیرا کیا بنا۔۔۔؟
تُو خاموش کیوں ہے؟ مجھے بتا، تیرا کیا بنا۔۔۔؟
نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بِچھڑ گئے۔۔!
میں بچھڑ کے تُجھ سے ، بھٹک گیا، تیرا کیا بنا۔۔۔؟
مجھے علم تھا ، کہ شکست میرا نصیب ہے۔۔!
تُو اُمیدوار تھا جیت کا، تیرا کیا بنا۔۔۔؟
میں مقابلے میں شریک تھا، صرف اِس لیے
کوئی آ کے مجھ سے یہ پوچھتا، تیرا کیا بنا۔۔۔؟
تجھے دیکھ کر تو، مجھے لگا تھا کہ، خوش ہے تو۔۔!!
تیرے بولنے سے پتہ چلا کہ، تیرا کیا بنا۔۔۔؟
روز کچھ نہ کچھ ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔۔
پہلے دل پھر میں اور اب ہر چیز !
گھر کے چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
کوئی چارہ گر ہی نہیں یہاں ، مرے دل کا درد گھٹے کہاں ؟
’’ وہ جو بیچتے تھے دواء دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے‘‘
دلِ ناتواں نہ ہو مضطرب ،ہے کٹھن جو زندگی کا سفر
ترے حوصلے تری مشکلیں سبھی سہل کر کے دکھا گئے
جنہیں آگے بڑھنے کا شوق تھا انہیں واپسی سے نہ تھی غَرَض
جو بھی ساحلوں پہ تھیں کشتیاں خودہی اپنے ہاتھوں جلا گئے
پڑا وقت مجھ پہ ذرا بُرا ، لگے رہنے مجھ سے کھنچے کھنچے
جو تھے کہتے محفلِ جاں مجھے ، وہی دوست نظریں چُرا گئے
یہ ہیں زندگی کی حقیقتیں ، یہ ہیں زندگی کی کہانیاں
جنہیں چاہا میں نے ہے بے غَرَض ، وہی لوگ دے کے دغا گئے
یہ خیالؔ کیسا خلوص ہے ، یہ ہیں کس طرح کی محبتیں ؟
مرے دوست میرے چَراغ سے مرے گھر کو آگ لگا گئے ۔۔۔۔!
میڈا سانول عشق جمھوری ہے ایویں مارشلاء نہ لاۓ کر
میرے شہردے وچ میرے دشمناں توں نہ دھرنے روز ڈیواۓ کر.
ہتھ نپ کے نت رقیباں دے نہ لانگ مارچ کراے کر
میکوں آندا ڈیکھ کے بوہے تے نہ چن کنٹینر لاۓ کر.!!
جیویں میکو آن روا یا ای ، ایویں میں وانگوں پل پل رو سیں
ہک واری رو کے تھک بہہ سیں ، ول دل دکھسی آ، توں ول روسیں
نہ دکھڑے آن و نڈ یسی آ کوئی ،تو ں لا کند ھیاں کو گل روسیں
بس شاکر فرق میعاد دا ہے ، میں اج روندا ہاں توں کل روسیں
جب خزاں آئی تو لوٹ آئے گا وہ بھی فراز
وہ بہاروں میں ذرا کم ہی ملا کرتا ہے ۔ ۔!
سفر مِیں دھوپ تو ھو گی، جو چَل سکو تو چَلو
سبھی ھی بھیڑ مِیں , تُم بھی نِکل سکو تو چَلو
کِسی کے واسطے رَاھیں کہاں بَدلتی ھیں
تُم اَپنے آپ کو خُود ھی , بَدل سکو تو چَلو
یہاں کِسی کو کوئی رَاستہ نہیں دِیتا
مُجھے گِرا کے اگر تُم , سَنبھل سکو تو چَلو
یہی ھے زِندگی ، کُچھ خواب، چَند اُمّیدیں
اِنھی کھلونوں سے تُم بھی , بہل سکو تو چَلو

سونے ورگے خالص اوہ ھوندن جیڑے سڑ کے کولے ھوندن
کئی سڑدن کیں دی الفت وچ کئی غرضی ٹولے ھوندن..
کئ مخلص بشر زوار وی ھوندن کئی جانڑ کے بھولے ھوندن

..بندے ذات دے گھٹیا نہیں ھوندے سارے خون دے رولے ھوندن
ک ہِک رات تے شام وے ڈھولا
تیئں سوہنے دے نام دے ڈھولا
تیرے باجھ ارام وے ڈھولا

ساتھوں مُول حرام وے ڈھولا
دل ساڈا درباراں ورگا
ناں لاویں اِلزام وے ڈھولا
تیرے باجھ ایہہ وَسدی نگری
سانُوں دِسدی لام وے ڈھولا
تُوں وی تے ایس جگ تے ہویا
ساتھوں وَدھ بدنام وے ڈھولا
صبح سویر دا وعدہ کر کے
کر چھڈّی وے شام وے ڈھولا
سانُوں اج وی تیرا کر کے
لوکی کرَن سلام وے ڈھولا
پیار دی پہل ہمیشہ سوہنی
بہُوں بَھیڑا انجام وے ڈھولا
جس کی یاد میں دل بیقراربہت ھے
مانا کہ اس کا ملنا دشوار بہت ھے
وہ جومیرے ھاتھوںکی لکیروں میں نہیں
.اس شخص سے مجھے پیاربہت ھے
.تم سے ملے وہ تواسے اتناکہہ دینا !
لوٹ آئےکہ مجھے اسکا انتظاربہت ھے.
سزا
جاؤ
نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو
ان کی آنکھیں ۔۔۔ دوزخ کے دروازے ہیں
اور تہہ خانوں میں جلتی اگ سے
ان کے دِلوں کی دیواریں کالی ہیں

ان چہروں کو دیکھو جن کے دانت
دہن سے باہر جھانکتے رہتے ہیں
اور بات کریں
تو منہ سے ان کے کف بہتا ہے
جن کا سامنا سچائی سے ۔۔ نا ممکن ہے
جو پھولوں کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں
جن کے روشن دان پہ کبھی پرندے
بیٹھ کے گیت نہیں گاتے
جن کے آنگن میں جا کر
دھوپ اور بارشیں عفت کھو دیتی ہیں
جن کی زبانیں
خوش لفظوں سے ۔۔۔ نا واقف ہیں
جن کے لفظ کسی اچھے کی سماعت سے ٹکرا کر
پتھر بن جاتے ہیں
وہ ۔۔ جو لوگوں کی خوشیوں کی موت پہ
خوشی مناتے ہیں
سائل پر کتے چھوڑتے ہیں
اور اپنے دروازوں پر
کالے، پیلے رنگ سے ۔۔۔ کھوپڑیاں بنواتے ہیں
جاؤ۔۔۔ اور ان چہروں کو دیکھو
آج سے تم
ان میں شامل ہو
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گنا ہوں کا حساب
میرے پاس اشکِ ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں
نشاں انہی کے ہیں باقی کتاب ہستی میں
زمانہ کرتا رہا جن کو بے نشان دیکھو
میں تجھے کھوکے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
دل کی تاک پہ دیے جلانے آؤں گا
میں تم کو کچھ یاد دلانے آؤں گا
شوق بہت تھا جن گلیوں میں بسنے کا
وہیں پہ اک دن خاک اڑانے آؤں گا
میرے تم سے کیسے کیسے رشتے ہیں
تم کو اک بار اور بتانے آؤں گا
جیتنے دوں گا تمہیں ہر بازی اور
اپنی ہار کا جشن منانے آؤں گا . .
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہوگئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکائیتیں
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہوگئے
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہوگئے
اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گرکے ہوگئے
روتے ہو اک جزیرہ ء جاں کو فراز تم
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے
اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری
آ گلے تجھ کو لگا لوں مرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں، تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری
میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری
وہ پہلے سے سیانے ہو گئے ہیں
یا شاید ہم دیوانے ہو گئے ہیں
جمی ہے گرد چہروں پر غموں کی
سبھی چہرے پرانے ہو گئے ہیں
جسے دیکھیں اسی کو مار ڈالیں
بڑے پکے نشانے ہو گئے ہیں
مری آنکھوں پہ حلقے پڑ گئے ہیں
مجھے سوئے زمانے ہو گئے ہیں
تعارف نظم سے بھی ہو چکا ہے
غزل سے بھی یارانے ہو گئے ہیں
کبھی راحیلؔ ہم بھی داستاں تھے
ہوا عرصہ فسانے ہو گئے ہیں
ﺍﯾﮏ ﻧﯿﻨﺪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﯾﮏ ﺿﻤﯿﺮ ﮨﮯﺟﻮ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺳﻮﯾﺎ ﺭﮨﺘﺎ ہے