Friday 10 July 2015

بلبل کے بچے اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
بہار آئی تو انگور کی سوکھی ٹہنیوں سے سے جیسے سبزہ پھوٹ کر نکلا ، ہر طرف نرم ونازک سبز ٹہنیوں کا جال سا بچھ گیا، پھر ان پر پھولوںکے گچھے نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری بیل انگور کے خوشوں سے لد گئی۔ ایک صبح میری بیٹی نے میری توجہ بلبل کے ایک جوڑے کی طرف دلائی جو کہ انگور کی بیل پر آشیانہ بنانے میں مصروف تھا۔ نر اور مادہ بلبل نے بڑی محنت کے ساتھ گول سا گھونسلہ بنایا اور بھر اسےمیں مخملیں روئیں کی گدی دار تہہ بچھائی ۔ ہم باپ بیٹی روزانہ بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ منظر دیکھتے اور انکی مہارت کی داد دیتے۔
ٓٓٓٓآشیاں بن گیا،تو دو انڈوں نے اسے رونق اور حرارت بخشی ،اب باری باری ،ایک بلبل ہمیشہ اپنے گھونسلے میں موجود رہتا، کچھ ہی دنوں بعد اسمیں دو چھوٹے چھوٹے بچے نظر آنے لگے ، یہ چھوٹا سا آشیاں اور بھی خوب صورت نظر آنے لگا، اسکی ساری رونق اور حسن و زینت اسکے مکینوںکے دم سے ہی تو تھی ، ورنہ وہ آشیاں تھا ہی کیا، چند تنکے ، آک اور سمبل کی روئی کی ایک تہہ !
جیسے ہی انڈوںسے بچے نکلے اس آشیاں کی چہل پہل اور رونقیں اور بھی بڑھ گئیں، ایک بلبل جاتا اور اپنی چونچ میں خوراراک بھر کر لاتا، دوسرا اسے آتا دیکھ کر پھر سے اڑ جاتا ، آنے والا اپنی لائی ہوئی خوراک اپنے بچوں کے حلق میں انڈیل دیتا، جیسے ہی وہ اس کام سے فارغ ہوتا دوسرا بلبل خوراک لے کر آ پہنچتا۔ یہ ننھے منے چوزے بھی بلا کے پیٹو تھے ، انکے پوٹے ہر وقت پھولے اور ٹھونس ٹھونس کر بھرے نظر آتے تھے ، لیکن پھر بھی انکی بھوک نہیں مٹتی تھی ، ہم نے تو ہر وقت ہی انکے ماں باپ کو انکے لیے خوراک ڈھونے میں ہی مصروف پایا۔ ہم بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھتے اور بلبلوں کی محنت اور خالق کائنات کی رزاقیت کی داد دیتے۔
ان پرندوں نے نہ کوئی فیکٹریاں لگائی ہیں ، نہ بڑے بڑے شاپنگ پلازے بنائے ہیں، نہ خوراک کے گودام بنائے ہیں ۔انہیں رزق کے لیے کسی کی غلامی نہیں کرنی پڑتی، کہیں دھکے نہیں کھانے پڑتے، جدھر نکلتے ہیں رزق کے انبار انکے منتظر ہوتے ہیں ، گوشت ، پھل ، پھول اور سبزیاں۔ ہر ایک کو اسکی ضرورت اور منشاءکے مطابق ہر چیز نہائت آسانی سے دستیاب ہے۔ اسکے برعکس کروڑوں انسان بھوک سے مرتے ہیں یا نان جویں کو ترستے ہیں، روٹی کے چند لقموں کی خاطر اپنی عزت ، وقار اور ضمیر سب کچھ بیچ دیتے ہیں۔ پھر بھی انہیں حسب ضرورت ،، روزی روٹی،، نصیب نہیں ہوتی۔فرق صرف یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی روزی روٹی کی ذمہ داری اللہ کو سونپ رکھی ہے وہ عیش کر رہے ہیں اور جس نے
اپنی ،، روزی روٹی کا ٹھیکہ ،، خود اٹھا رکھا ہے بھوکا مرتا ہے، یہ انسان روزانہ اپنے ارد گرد موجود ان گنت مخلوقات کو فکر رزق سے بے نیاز ہو کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے دیکھتا ہے لیکن اس چغد کو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔جس دور کے لوگوں کو یہ بات سمجھ آگئی تھی انہوں نے خود کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کر دیا تھا ۔ پھر زمین و اسمان نے ان پر اسی طرح رزق کے دروازے کھول دیے تھے، جس طرح کے دیگر مخلوقات پر آج بھی کھلے ہیں۔ مﺅرخین مسلمانوں کے اس سنہری دور کی بابت لکھتے ہیں کہ رزق کی اتنی فرا وانی تھی کہ کوئی محتاج ڈھونڈے سے نہ ملتا تھا۔
ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ گوشت خور لالیاں ان ننھے منے بلبلوں کے آشیانے پر منڈلانے لگیں، مجھے یقین ہو گیا کہ اب بلبل کے بچوں کی خیر نہیں، ہم نے انہیں بہتیرا بھگایا لیکن ہمارے ہٹتے ہی وہ پھر آ دھمکتیں، ایک دن کیا دیکھا کہ ایک گوشت خور لالی ، بلبل کے آشیاں کے بلکل قریب آ گئی یہ دیکھ کر دونوں بلبل اس پر اتنی دلیری سے جھپٹے کہ ہم ششدر رہ گئے ۔ انہوں نے چونچیں مار مار کر اس لالی کا برا حال کر دیا ۔ اور اسے اس طرح کھدیڑا کے اسے پھر بلبل کے آشیاں کے قریب پھٹکنے کی جراءت نہیں ہوئی۔
کچھ ہی دنوں میں بلبل کے بچوں کے پر نکل آئے۔ ایک دن دیکھا تو انکا گھونسلہ خالی تھا ، نہ بلبل نہ انکے بچے ! یہ دیکھ کر ہمارا دل دھک سے رہ گیے کہ شائد کسی شکاری پرندے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میری بیٹی نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو انہیں ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ قریبی جامن کے پیڑ پر
برا جمان تھے ، ماں باپ انہیں پرواز سکھا رہے تھے ، خود کفیل ہونے کے گر سکھا رہے تھے ، دو چار روز میں یہ کورس بھی پورا ہو گیا اور بلبل کے بچے اپنی منزل کی طرف پرواز کر گئے ، کبھی نہ لوٹنے کے لیے !
اب نہ انہیں اپنے ماںباپ کی یاد ستائے گی نہ ماں باپ کو یہ جانے والے یاد آئیں گے، کہ انکے خالق و مالک نے یہی انکی زندگی کا دستور ٹھہرایا ہے اور وہ بلا چوں چراں اس پہ عمل کرتے ہیں انکے احساسات اور جذبات بھی اپنے خالق و مالک کی رضا کے مطابق ڈھلے ہوئے ہیں۔ اس اطاعت کے بدلے میں قدرت نے انہیں فکر رزق سے بے نیازی سمیت جن انعامات سے نوازا ہے انسان اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اسکے بر عکس انسان کو انس و محبت کی دولت عطا ہوئی اسے رشتوں ناتوں کو نبھانے اور ربط و تعلق کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ، لیکن یہ ایسا بد بخت ہے کہ لالچ حرص اور ہوس کی خاطر وہ اپنوں کے لیے ایسا بیگانا بن گیا ہے کہ جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔ حسد، کینہ بغض اور دشمنی کے مستقل جذبات انسانوں کے سوا کسی جاندار میں نہیں پائے جاتے ۔ جانوروں میں ہم جو وحشت اور دشمنی کے مظاہر دیکھتے ہیں یہ وقتی ہوتے ہیں جو کہ اپنی حفاظت اور دوسروں کی بے جا مدا خلت کی بنا پر ہوتے ہیں ۔ فریق مخالف کے نظروںکے سامنے سے ہٹتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ شرف صرف انسان کو ہی حاصل ہوا ہے کہ وہ کینہ اور بغض کو قبر تک ساتھ لیکر چلتا ہے۔اپنے ماں باپ، بہن، بھائی، عزیز اور دوست احباب کو بھی نہیں بخشتا۔ انس و محبت ہی شرف انسانیت ہے ۔ اس شرف سے عاری انسان اپنی ساری زندگی اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرنے میں بسر کر دیتا ہے کہ وہ کتنا غلیظ، گھٹیا اور بد ترین ہے۔ رشتے ناطے اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے، حقیقت یہ ہے کہ انہیں حیوان کہنا ، حیوانوں کی توہین ہے کیونکہ حیوان تو وہی کچھ کرتے ہیں جس کے لیے انہیں تخلیق کیا گیا ہے ۔انسان وہ کچھ کرتا ہے جو اسکے مقصد تخلیق کے منافی ہے۔ قدرت اپنے نظام سے بغاوت اور سر کشی کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔ سو انسان اپنی بغاوت اور سرکشی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
بلبل کے آشیانے کے مکین جا چکے اب انکا گھونسلا اجاڑ پڑا ہے ، زندگی اور حرارت سے محروم ! اسمیں کوئی چہل پہل اور رونق نہیں ، آشیاںکی رونقیں تو مکینوں کے دم سے ہوتی ہیں !

No comments:

Post a Comment