Tuesday 5 August 2014

جدید سائینسی تحقیق و جستجو ! حسب منشا بیتی یا بیتا ممکن ہے !,


جدید سائینسی تحقیق و جستجو ! حسب منشا بیتی یا بیتا ممکن ہے !


 CAUSTICUM  کاسٹیکم۔
کاسٹیکم کے مریض معاشرے سے ناراض ، چڑ چڑے ، غصیلے ،تھوڑے شکی مزاج ،تھوڑے بد گماں اور تنقیدی ذہن کے مالک ہوتے ہیں ، یاد داشت کمزور ، منتشر خیال ، جسمانی سطح پرکمزوری ، پٹھوں اور جوڑوں میں اکڑن اور سختی ، رباطون اور بندھنون میں اکڑن اور سکڑن انکا امتیازی نشان ہے ۔
 کاسٹیکم کی شخصیت کے حامل افراد بڑے مخلص ، معاملہ فہم اور معاملات کو گہرائی سے اور سنجیدگی سے لینے والے ہوتے ہیں ، ان میں غضب کی قوت ارتکاز ہو تی ہے ، ہر مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی صلاحیت ہی انہیں نہائت حساس بنا دیتی ہے ۔ جذباتی اشتعال انکی شخصیت کا نمایاں حصہ ہے ۔ ہمدرد ، مخلص اور نہائت دیانت دار ہوتے ہیں ۔ دوسرون کی خاطر بے لوث قربانی کا جذبہ ان میں بھرا ہوتا ہے ۔ لیکن جب لوگ انکی ہمدردی اور اخلاص اور دیانت داری کا صلہ انہیں دھوکہ ، مکاری ، عیاری اور لالچ اور حسد کی صورت میں انہیں دیتے ہیں تو یہ بات شدید غم و غصہ اور کرب کی صورت میں انکے دل و دماغ کی گہرائیوںمیں اتر جاتی ہے اور انکے جذبات کو بھڑکا دیتی ہے ۔انکی دوسری خصوصیت نرم دلی اور گداز ہے ۔ نا انصافی ظلم اور زیادتی ، چھوٹی ہو یا بڑی ، اپنوں کے ساتھ ہو یا بیگانوںکے ساتھ ، کاسٹیکم دل کی گہرائیوںسے محسوس کرتے ہیںاور جذباتی ہو جاتے ہیں ۔ تیسری نمایاں خصوصیت جو کاسٹیکم کی شخصیت میں ہمیں نمایاں ملتی ہے وہ ہے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکنا اور انکا بر ملا اظہار ہے۔ بلکہ وہ اس معاملے میں منہ پھٹ ہوتے ہیں۔ہر وہ بات جو انکے نزدیک غلط ہے انکے اعصاب کو چٹخا دیتی ہے ۔ جلد اشتعال میں آجاتے ہیں ۔ غم غصہ اور کڑھنا ، یہ وہ تین بنیادی عنصر ہیں جو آغاز سے انتہا کے ساتھ ، کاسٹیکم کے نروس سسٹم کو متاثر کرتے رہتے ہیں ۔ اگر آپ ایک چھوٹے سے بچے کے سامنے کسی کو پیٹیں اور کاسٹیکم کے بچے کے تاثرات کا مشاہدہ کریں ۔ ہر ضرب پر بچے کے چہرے پر ایسا تاثر ابھرے گا جیسے یہ چوٹ اسے لگی ہو۔پڑوس میں کسی بچے کی پٹائی ہو رہی ہو تو کاسٹیکم بچہ اپنے گھر میں نروس ہو جائے گا ۔ اسی طرح بڑے افراد بھی کسی کادکھ اور اذیت برداشت نہیں کرسکتے ۔ حالانکہ وہ خود خاصے مضبوط ہوتے ہیں ، درد کو بخوبی برداشت کرسکتے ہیں ، لیکن دوسرے کی مشکل اور اذیت کے معاملے میں جذباتی سطح پر حساس ہوتے ہیں ۔ لیکن جو چیز انہیں بری طرح چونکاتی ہے وہ کسی کے ساتھ ہونے والی معاشرتی اور سماجی نا انصافی اور جبر ہے ، ایسا ماحول اور معاشرہ جسمیں قدم قدم پر بد دیانتی ، نا انصافی ، دھوکا دہی اور دوسروں کے اعتماد اور خلوص سے فائدہ اٹھانے کا چلن ہو ،ایک تعلیم یافتہ ، باشعور اور سماجی انصاف کے اصولوں سے آشنا کاسٹیکم کے لیے جہنم سے کم نہیں ہوتا۔ کاسٹیکم کی حساس اور جذباتی طبیعت کا اظہار انکی برہم طبیعت سے ہوتا ہے ۔ ذرا ذرا سی بات پر اشتعال میں آجانا کسی کلیے، قاعدے اور نظم و ضبط کی پرواہ نہ کرنا انکے لیے اکثر بڑی دشواریاں کھڑی کر دیتے ہیں ۔ ایسے افراد انقلابی تحریکوںکے ممبر بن جاتے ہیں ، معاشرتی اور حکومتی ادارون کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتے ہیں ، کیمو نسٹ اور سوشلسٹ نظریات کے حامل افراد میں کاسٹیکم اکثر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ابتدائی دور میں انکا بلڈ پریشر بڑہنے لگتا ہے ، دھیرے دھیرے وہ مستقل ہائی بلڈ بریشر کے مریض بن جاتے ہیں ۔ معاشرتی نا انصافی کی ایک مثال لیں ۔ ایک ایسا کنبہ جسکا سربراہ فوت ہو گیا ہو اسمیں ایک لڑکی ہے جو کہ اپنے بہن بھائیوںمیں وہی سب سے بڑی ہے، وہ اپنے گھر بار اور بہن بھائیوں کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا لیتی ہے ، وہ ملازمت کرتی ہے ، بہن بھائیوں کی پرورش کرتی ہے ، انہیں لکھا پڑہا کر اپنے پیرون پر کھڑا ہونے کے قابل بناتی ہے ، انکی شادیاں کرتی ہے ۔ اس ساری تگ و دو میں وہ خود کو نظر انداز کیے رہتی ہے ، اسکے سر میں چاندی اتر آتی ہے ، اسکا نہ گھر آباد ہوتا ہے نہ جذباتی تسکین ہوتی ہے ، جب وہ اس ذمہ داری سے سرخرو ہو جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ سب بہن بھائی اپنی اپنی دنیا میں کھو گئے ہیں کسی کو اسکی پرواہ نہیں تو بس جان لیں کہ کاسٹیکم کا تاریک دور شروع ہو گیا ۔کاسٹیکم کی عدل و انصاف کی خوگر حس جب معاشرے میں ناانسافیون کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو شکست خوردہ انا پسپائی کا رخ اختیار کرتی ہے ، اسکی بغاوت اور جارحیت کا رخ مریض کے اندر کی طرف ہو جاتا ہے ، اسکا غصہ اسکی کڑھن اعصاب شکستگی کا باعث بننے لگتی ہے اور جسمانی علامات تھکن کمزوری ، جوڑوں اور پٹھوں کی تکالیف کی صو رت میں ظاہر ہوتی ہے ۔اسکی دماغی صلاحیتیں جواب دینے لگتی ہیں اسکا حافظہ کمزور ہونے لگتا ہے ، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اسکی جگہ منتشر خیالی لے لیتی ہے ۔ کاسٹیکم دھیرے دھیرے ٹوٹتا ہے ۔ اسلیے بتدریج آنے والا فالج ، کمزوری جوڑوں کی سختی اور درد کا فالجی حالت میں تبدیل ہو جانا مرکزی علامت ہے کاسٹیکم کی اعصابی تکالیف مرکزی نروس سسٹم سے برانچوں میں سرائت کرتی ہیں کو ئی نہ کوئی برانچ مفلوج ہو جاتی ہے تاکہ مرکزی نظام بچا رہے ، جیسے چہرے کا لقوہ ، پپٹوں کا فالج ، نگلنے والے اعضا کا فالج ، آلات صوت کا فالج ۔ مثانے کا فالج وغیرہ ۔ ذہنی اور جذباتی پسپائی جب اندر کا رخ کرتی ہے تو اسکا جسمانی طور پر یوں اظہار ہوتا ہے ۔ کہ اسکی نسیں اور بندحن سکڑ جاتے ہیں ، لگتا ہے اعضا سکڑ کر چھوٹے ہو گئے ہیں ، اعضاءکی لچک ختم ہو جاتی ہے اور انمیں سختی آجاتی ہے ، انکی قوت و حرکت جواب دینے لگتی ہے ، ذہنی انتشار اور ناانصافی اور جبر کا ہوا ، وہم کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ مفلوج کردینے والا خوف ! اپنے یا اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ کچھ برا ہونے کا ، کسی حادثے کا کسی تباہی کا خوف ۔کاسٹیکم کی اہم خصوصیات ہیں۔

Monday 4 August 2014

حسب منشا بیٹی یا بیٹا ممکن ہے !

آپکی خواہش اور تمنا بس ایک کال کے فاصلے پر !

بوا سیر

بواسیر…. وجوہات، علامات، علاج
تحریر و ترتیب : ڈاکٹر سیّد حفیظ الرّحمٰن۔ ساہیوال
بوا سیر ایک ایسا عارضہ ہے جو بلالحاظِ مذہب و ملت، رنگ ونسل، عمر و جنس دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں پائلز(Piles)، اردو، فارسی میں بواسیر، میڈیکل کی اصطلاح میں Hemorrhoids کہتے ہیں،
بواسیر کیا ہے؟
مقعد میں پھیلے ہوئے شریانوں اور وریدوں کے نیٹ ورک کی مقامی سوزش ، ورم ، خراش سوجن, اور زخم کی حالت کو عرف عام میں بواسیر کہتے ہیں۔
مقعد کے اوپر والے حصے (Rectum)کے اندر خاص قسم کے بے حس خلیات کی ایک دبیز تہہ چڑہی ہوتی ہے ہوتی ہے جب کہ مقعد کا نچلے والا حصہ(Anus) عام جلد پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں درد محسوس کرنے والے خلیے ہوتے ہیں مقعد کی اندرونی جھلیوں یا مقعد میں خون کی ان نالیوں میں مسلسل دباﺅ، خراش اور رگڑ کے باعث سوزشی اور ورمی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور وریدیں گچھوںکی شکل میں پھول کر سطح پر ابھر آتی ہیں (A varicosity of the external hemorrhoidal veins)۔ بعض اوقات یہ وریدی سوزش، ورم اور سوجن مقعد کے صرف اندرونی حصے میں ہوتی ہے ، کبھی صرف مقعد کے منہ کے قریب ، تو کبھی دونوںمقامات پر موجود ہوتی ہے۔بسا اوقات قضائے حاجت کے وقت فضلے کے دباﺅ اور رگڑ سے یہ متاثرہ وریدیں پھٹ جاتی ہیں تو ان میں سے خون بہنے لگتا ہے۔
اگر مقعد میں موجود کوئی شریان پھٹ جائے تو سرخ چمکدار خون تیزی سے بہتا ہے ، جبکہ وریدی خون سیاہی مائل اور سست رفتار ہوتا ہے۔ اگر یہ وریدی سوزش ، ورم اور سوجن صرف مقعد کے اندرونی حصے میں ہو تو بلا درد خون بہتا ہے اسے اندرونی بواسیر(internal hemorrhoid کہتے ہیں۔ جبکہ مقعد کے منہ کے قریب وریدوں میں ورم ،اور سوجن کو بیرونی بواسیر (external hemorrhoids. )کہتے ہیں، بیرونی بواسیر کی حالت میں شدید درد اور جلن پائی جاتی ہے۔ ان ہر دومتاثرہ مقامات پر سطحی خلیات استر و جلدابھر کر گو مڑیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جنہیں عرف عام میں موہکے یا مسے کہتے ہیں۔بسا اوقات بوا سیر کے مریضوں میں مقعد پر متاثرہ جگہ سوج کر رسولی نما گلٹی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اس حالت کو(thrombosed hemorrhoid) کہتے ہیں۔جس میں شدید درد، جلن خارش ہوتی ہے ، اسکی وجہ ورید میں تھکا بن جانا ہوتا ہے۔
بواسیر کی کیفیت کے لحاظ سے بھی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں :
بواسیر خونی اور بواسیر بادی۔
پہلی قسم میں خون آتا ہے جبکہ ثانی الذکر میں خون نہیں آتا ، جبکہ باقی علامات ایک جیسی ہوتی ہے۔
علامات
مقعد میں خارش ، رطوبت اور درد کا ہونا ، اجابت کا شدید قبض سے آنا ، رفع حاجت کے دوران یا بعد میں خون کا رسنا ، پھولی ہوئی وریدوں کے گچھوںکا رفع حاجت کے وقت دباﺅ سے باہر نکل آنا(prolapsed internal hemorrhoid)اور مقعد پر موہکوں کا نمایاں ہونا اس مقامی تکلیف کے ساتھ بھوک کا نہ لگنا،قوتِ ہاضمہ سست ہو جانے کے باعث تبخیر،تیزابیت اور گیس کی شکائت۔غذا کے ہضم نہ ہونے اور پاخانہ کھل کر نہ آنے کی وجہ سےا پھارہ اور پیٹ کا پھو لا پھو لا رہنا۔منہ سے بدبو آنا۔چہرے کی رنگت زرد اور جسمانی کمزور ی ۔اعضاءمیں دکھن کا احساس ،جوڑوں اور کمر میں درد ،نیند میں کمی اور مزاج میں چڑچڑاپن نمایاں علامات ہیں ۔
بواسیر کے اسباب :
عموما یہ مرض موروثی ہوتا ہے۔ قدیم طب میں قبض کو ”ام الامراض“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طویل مدت تک قبض یا دائمی قبض بواسیر کی ایک اہم ترین وجہ ہے ، اجابت کا زور لگانے سے خارج ہونا، خواتین میں دوران حمل اکثر قبض کا عارضہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حمل کے بوجھ سے مقعد کے پٹھوں میں کھچاؤ، موٹاپا، گرم اشیاءمصالحہ جات کا بکثرت استعمال ، ، غذا میں فائبر ( ریشہ ) کی کمی سے بھی اجابت کی سختی اور مشکل اخراج کے باعث مقعد میں دباؤ بڑھ کر وریدوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جو دن بھر بیٹھنے کا کام کرتے ہیں اور قبض کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بھی عموماً بواسیر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ قبض کشا ادویات کا بکثرت استعمال ۔
بواسیر ان لوگوں میں بھی ایک عام شکایت ہے جو وقت بے وقت اور بے تحاشا الم غلم کھاتے رہتے ہیں یا ایسے افرادجو آنتوں کی بیماریوں،آئی بی ایس (Irritable bowel syndrome) اور آئی بی ڈی (inflammatory bowel disease ) میں مبتلا ہوکر اسہال یا قبض کے شکار ہوتے ہیں۔ اغلام بازی بھی بواسیر کا ایک اہم سبب ہے۔
مزید براں بڑہاپا، ذہنی دباﺅ ، ڈپریشن ، جگر کی بیماریاں ،ذیابیطس کے مریضوں میں بھی بواسیر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔
تشخیص
مقعد کا اندرونی اور بیرونی معائنہ اور مندرجہ بالا علامات
علاج؛
پرہیزو غذا :
بواسیر میں پرہیز و غذا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو کھانے پینے کے معمولات کو درست کرنا ضروری ہے۔ کھانا وقت پر
پرہیزو غذا :
بواسیر میں پرہیز و غذا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو کھانے پینے کے معمولات کو درست کرنا ضروری ہے۔ کھانا وقت پرمناسب مقدار میں کھائیں اور اپنی غذا میں ریشہ دار علاج کا مقصد اور ہدف صرف یہ ہے کہ حاجتِ بشری کے وقت فضلہ بالکل نرم ہو تاکہ آسانی سے خارج ہوسکے۔ روزانہ آٹھ دس گلاس پانی پینا لازمی ہے۔اپنی غذا میں وافر مقدار میں تازہ سبزیاں، میوہ جات، ڈرائی فروٹ شامل کریں تاکہ وافر مقدار میں ریشہ ملے اور قبض کی شکایت دور ہوجائے۔ بڑے جانور کا گوشت ، پلاﺅ ، انڈا ، مچھلی ، مرغ اور کڑاہی گوشت مصالحہ جات اور تلی ہوئی اشیاءسے مکمل احتیاط کی جائے۔
جو مریض آنتوں کی بیماری (آئی بی ایس) میں مبتلا ہوں ان کے لئے حل ہونے والا ریشہ (دَلیا، بھورے چاول)، حل نہ ہونے والا ریشہ (گندم، جوار کی روٹی، سالم اناج، خشک میوہ جات، بیج) بہتر ہے۔ جن مریضوں کو آنتوں کی کسی بیماری کے ساتھ بواسیر بھی ہو، انہیں اپنی غذا کے لئے کسی ماہر معالج سے مشورہ کرنا چاہئے۔ ہلکی پھلکی ورزش کومعمول بنائیں۔۔
ہومیو پیتھک کی زود اثر ادویات چند یوم میں بواسیر کو جر سے اکھاڑ پھینکتی ہیں۔ بواسیری مسوں کو جلانے یا آپریشن جیسی تکلیف دہ صورتحال سے بچاتی ہیں۔ مزید معلومات اور رہنمائی کے لیے 03216904036 پر کال کیجیے ۔


مردانہ بانجھ پن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اگر مرد کی منی میں تولیدی جراثیموں کا فقدان ہو، یا ا ایک مخصوص مقدار میں موجود نہ ہوں تو ایسے مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اسکی کئی صورتیں ہیں :
A)spermia - complete lack of semen)
Asthenozoo)spermia - reduced sperm motility)
Azoo)spermia - absence of sperm cells in semen)
Hypo)spermia - small semen volume)
Oligozoo)spermia - few spermatozoa in semen)
Necrozoo)spermia - dead or immobile sperms)
Teratozoo)spermia - sperm with abnormal morphology)
وجہ کچھ بھی ہو ، ہومیو پیتھک میں ایسی شافی ادویات موجود ہیں جو اس شکائت کا بسرعت تمام ازالہ کر دیتی ہیں اور مرد کو اولاد جیسی نعمت کے حصول کے قابل بنا دیتی ہیں ۔


How to conceive a male baby !حسب منشا بیٹی یا بیٹا !


حسب منشا بیٹی یا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

بچے کی تخلیق مرد اور عورت کے ایک ایک جنسی خلیے کے ملاپ سے ہوتی ہے ۔مرد کے خلیے کو سپرم اور عورت کے خلیے کو اووم کہتے ہیں ۔
ہر خلیے میں 23۔ 23 جوڑے کرومو سومز ہوتے ہیں ۔ ان جوڑوں میں ایک ایک جوڑا مختلف ہوتا ہے۔جو کہ جنس کا تعین کرتا ہے۔ یہ جورا ایکس یا وائی کرومو سوم کا حامل ہوتا ہے۔ عورت کا خلیہ یعنی اووم X+22 جبکہ مرد کا سپرمX+22 یا Y+22 پر کا حامل ہوتا ہے۔۔
اگر مرد کا وائی کرومو سوم کا حامل سپرم عورت کے اووم کے ساتھ مل کر زائیگوٹ بناتا ہے تو تخلیق پانے والا بچہ لڑکا ہوگا۔ اگر مرد کا ایکس کرومو سوم کا حامل سپرم زائگوٹ بناتا ہے تخلیق پانے والا بچہ لڑکی ہو گی۔
جنسی خلیوں کا باہم ملاپ اور جنس اور دیگر خصوصیات پیدا ہونے کا عمل خاصا پیچیدہ ہوتا ہے۔
مبا شرت کے دوران ایک نر بیک وقت کم ازکم 90 ملین کرم منو ی خارج کر تا ہے۔ یہ تو لید ی ما دہ پانچ منٹ کا مشکل سفر ماںکے جسم میں طے کر کے بیضہ تک پہنچتاہے90ملین میں سے بمشکل صرف ایک ہزار کرم منو ی بیضے تک پہنچنے میں کامیا ب ہو تے ہیں۔اس بیضے کا سا ئز نصف نمک کے دانے کے برابر ہو تا ہے جس میں صرف ایک کرم منوی کو اندر آنے دیا جاتا ہے ۔
مرد کا وائی کرومو سوم کے حامل سپرم سست ر فتار ہو تے ہیں لیکن ان کی زندہ رہنے کی عمر زیادہ ہوتی ہے لہذا زنانہ تو لیدی اعضاء میں دیر تک رہتے ہیں ۔ یہ نطفے تیزابی ماحول میں زیادہ بہتر کار کر دگی دکھاتے ہیں جب کہ ایکس الکلی ماحول میں اچھی کا رکر دگی دکھاتے ہیں ۔
بسا اوقات مرد کے وائی کرومو سوم کے حامل خلیات کسی خرابی کی وجہ سےکم ، یا کمزور ہوتے ہیں، یا خاتو ن کی ویجائنہ کے نامناسب ماحول میں مر جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں لڑکیاں ہی جنم لیتی ہیں۔
لیکن کسی کے ہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوں تو اسکی سب سے بڑی وجہ اووم کی وائی کرومو سوم کے حامل سپرم سے ایک طرح کی الرجی ہوتی ہے جسکے باعث وائی کروموسوم کے حامل سپرم اور اووم کا ملاپ ہی ممکن نہیں ہوتا یعنی اووم وائی کروموسوم کے حامل سپرم کو قبول ہی نہیں کرتا ایسی خواتین صرف لڑکیون کو ہی جنم دے سکتی ہیں۔
ہومیو پیتھی میں ان تمام عوامل کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے جنکے باعث حسب منشا ء بیٹے یا بیٹی کا حصول ممکن ہے ۔ اسکے لیے حمل سے پہلے خاتون کو صرف ایک ماہ دوا کھانی پڑتی ہے جس سے ان خرابیوں کا سد باب ہو جاتا ہےجنکے باعث صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں یا بیٹے ہی بیٹے جنم لیتے ہیں۔

یاد رہے کہ بہت سے عطائی جو کہ اولاد نرینہ کے خواہشمند افراد کو لؤٹتے ہیں وہ حمل ٹھہر جانے کے بعد خاتون کو دوران حمل مختلف ادویات کھلاتے ہیں انکا دعویٰ ہے کہ اس سے لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ انکا یہ دعویٰ جہالت پر مبنی ہے کیونکہ اووم اور سپرم کے ملاپ کے ساتھ ہی جنس کا تعین بھی ہو جاتا ہے جسے زائیگوٹ بننے کے بعد تبدیل کرنا ممکن نہین ہوتا۔

Conceive a male baby !


ایپس میلیفیکا
APIS MEL.


۔ایپس کی مرضیاتی علامات کی بجائے بنیادی خصوصیات یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ یہ جسم کے داہنی جانب تکالیف کی دوا سمجھی جاتی ہے ۔ علامات دائیں سے بائیں جانب یا پھر اور سے نیچے کی جانب بڑہتی ہیں ۔ ایپس کے مریضوں میں تھکن اور جسمانی دکھن نمایاں طور پر ملتی ہے ۔ یہ تھکن اس قسم کی ہوتی ہے جیسے مریض نے از حد محنت مشقت کی ہو ۔ اسکا انگ انگ دکھتا ہے ۔ ذرا سا چھونا بھی برداشت نہیں کرتا ۔ مریض کہتا ہے کہ چھونے سے اسکا روواں روواں دکھتا ہے ۔ ایپس کی جنرل درد سطحی ہوتی ہے ۔ پیٹ اور جگر کی تکالیف میں آپ مریض کے پیٹ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے مریض درد سے چیختا ہے۔ تھکن کے مارے مریض لیٹ جانے کی خواہش رکھتاہے۔تھکن اور درد کمر میں نمایاں ہوتی ہے جو بیٹھ کر اٹھتے ہوئے شدت اختیار کرتی ہے۔ ایپس تنگ اور کسا ہوا لباس بھی نہیں پہن سکتا اسے اسے شدید گھٹن اور گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اسی طرح تنگ ، بند اور گرم اور پر ہجوم جگہ پر بھی مریض غش کھا جاتا ہے۔ جو خواتین بازار میں ، ویگن میں ، شادی اور دیگر تقریبات میں جہاں رش ہوتا ہے وہاں دل گھٹنے اور گھبراہٹ اور سانس بند ہونے کی شکاےت کرتی ہیں ، انہی میں سے کچھ ایپس ہوتی ہیںکچھ پلسٹیلا اور کچھ ارجنٹم نائٹ ۔ ایپس شدید دماغی کمزوری لاتی ہے ۔ ایپس کے پرانے مریض حد درجہ کے بھلکڑ ، غیر حاضر دماغ اور دماغی سست روی کا شکار ہوتے ہیں ۔
 انہیں کسی بات پر توجہ دینے میں شدید مشکل پیش آتی ہے ۔یہ دماغی کمزوری شدید انحطاط کا باعث بن سکتی ہے۔مریض گرد و پیش سے مکمل بیگانہ اور بے خبر نظر آتا ہے۔مریض اگر سنجیدہ اور رنجیدہ باتوں پر بیو قوفوں کی طرح ہنسے تو یہ بھی ایپس کی علامت ہے۔ ایپس کی ایک اور اہم علامت بے ڈھنگا پن ہے ۔ یہ ہاتھوں میں ہوتا ہے مریض کے ہاتھوں سے چیزیں بے اختیار گر پڑتی ہیں ۔ یہی علامت بو وسٹا میں ملتی ہے لیکن مریض سرد مزاج ہوتا ہے جبکہ ایپس میںگرم مزاجی ہے ۔ پر نم آنکھیں ، آنسوﺅں سے لبریز ایپس میں ملتی ہیں ۔ یہ رونا نہیں ہے ۔ البتہ ایپس میں بچے ہر وقت روتے ملتے ہیں۔ اگر بچہ سونے کے دوران یکا یک دردناک چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا ہو تو یہ ایپس کی یقینی شناخت ہے۔ ایپس بچہ ہو یا بڑا تنہا چھوڑا جانا برداشت نہیں کرتا۔ایپس کے مریض بے چین اور بے قرار ملتے ہیں ۔ انکی مصروفیات بدلتی رہتی ہیں ۔ کسی پیشے میں ٹک کر نہیںرہتے ۔ پیشے بدلتے رہتے ہیں۔شدید ڈیپریشن ۔ مریض موت کو قریب محسوس کرتا ہے لیکن اسمیں موت کا خوف کم ہی ملتا ہے۔
 شدید جنسی رغبت اور شدید حاسدانہ جذبات۔ (لیکسس) جنسی عدم تسکین کے باعث ہونے والی تکالیف ۔ جنسی عدم تسکین ے باعث خواتین مین شدید حاسدانہ جذبات ، اور مالیخولیائی علامات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ طلاق یافتہ خواتین یا بیواﺅں میں اگر ایسی علامات ملیں تو کونیم کے بجائے ایپس کا سوچیں۔ شہد کی مکھی کے ڈنک لگنے سے درد اور بے تحاشا سوجن ۔ پردرد سانس۔ میننجائٹس کی عظیم دوا ہے ۔ ( سٹرا مونیم ۔ ہایو سائمس۔ بیلا ڈونا۔ نیترم سلف۔ ہیلی بورس۔ برائی اونیا) ایپس کے میننجائٹس میں سر میں کرنٹ لگنے سے درد ہوتے ہیں ۔ یہ درد گرمی اور تپش سے شدید تر ہو جاتے ہیں۔ مریض ہر شاک کے ساتھ نہائت اذیت ناک چیخ مارتا ہے۔ الرجی ایپس کی ایک اور نمایاں خصوصیت ہے۔ جب گلابی یا سرخ رنگ کے باریک باریک دانے اچانک نکل آئیں اور انمیں ڈنک لگنے کی کیفیت ہو گرمی سے تکلیف بڑہے۔ تو ایپس معروف دوا ہے۔اگر جلد کے کسی حصے میں اتنی شدید سوجن ہو جائے کہ محسوس ہو کہ جلد سوجن کی شدت سے پھٹ جائے گی تو ایپس کو کبھی فراموش نہ کریں۔ ایپس ایک مخصوص قسم کے پرانے سر درد کی بھی شاندار دوا ہے ۔ یہ درد سر کی بائیں جانب کان کے پیچھے سے شروع ہوتا ہے اور بائیں آنکھ تک پھیل جاتا ہے ۔ ایپس آنکھوں کی سوزش میں بھی مستعمل ہے ۔ جبکہ پلکوںمیں میں سوزش ہو اور آنکھ کا سفید حصہ تازہ گوشت کی مانند سرخ نظر آئے۔اور بیرونی جانب آنکھیں سوجی ہوئی ہوں ( کالی کارب میں آنکھوں کی نچلی جانب سوجن ہوتی ہے۔ داہنی اوری میں سسٹ۔پیشاب میں کمی یا بندش۔ پیاس کا مکمل فقدان (پلس۔جیلسی)۔ امراض قلب اگر چلنے سے پیر بری طرح سوج جاتے ہوں اور انمیں دکھن اور جلن ہونے لگتی ہو تو یہ ایپس کا کیس ہے ۔ اسی طرح چھاتی کی تکالیف میں اگر کساﺅ محسوس ہو ، مریض لیٹ نہ سکے اسے سانس لینا دشوار ہو ہر سانس آخری سانس محسوس ہوتی ہو تو ایپس دوا ہوسکتی ہے۔
 .

 .