Friday 10 July 2015

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہوگئے
اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکائیتیں
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہوگئے
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہوگئے
اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گرکے ہوگئے
روتے ہو اک جزیرہ ء جاں کو فراز تم
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے

No comments:

Post a Comment