Friday 10 July 2015

اللہ گھر پہ نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
بہت پرانے وقتوں کی بات ہے جب امام مالک کا وجود تھا ، نہ ابھی امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل پیدا ہوئے تھے ، نہ صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی۔ ابن ماجہ جیسی کتب وجود میںآئی تھیں، نہ ہی کہیں دیو بندی ، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث نامی کوئی مکتبہ فکر پایا جاتا تھا اس وقت بھی ایک دین کامل پایا جاتا تھا جسکے حامل ،، مسلما ن،، کہلاتے تھے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس دور میں نہ سکولز تھے نہ کالجز اور نہ یو نیورسٹیاں ، نہ مطبع خانے اور نہ یو نیورسٹیاں ، پھر بھی مسلمان پوری دنیا میں صاحبان علم و دانش کہلاتے تھے۔
یہاںتک کہ ،، مسلمانوں کے ملک میں بھانت بھانت کی سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے اداروں کا بھی کوئی وجود نہیں تھا ، انکے حکمران مٹی گارے اور گھاس پھوس کی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ لیکن انکے ملک کا نظام مثالی تھا ہر طرف عدل و انصاف اور امن و امان کا دور دورہ تھا ، عورتیں اور بچے تن تنہا دور دور کے سفر کرتے تھے لیکن انہیں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا تھا۔یہی نہیں بلکہ یہ قوم اس دور کی ،، سپر پاور،، تھی، اور پوری دنیا کی نگہبانی کا فریضہ سر انجام دیتی تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی ہر بستی میں اایک یا دو ہی مساجد کچی اور بلکل سادہ سی ہوتی تھیں، نہ سنگ مر مر کا فرش ، نہ دیواروں پر نقش و نگار ، نہ بلند وبالا مینار، نہ رنگ برنگے منقش قالین اور صفیں، پھر بھی لوگ ان مساجد کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ لوگوں کو پکڑ پکڑ کرمساجد میں لانے کے لیے کسی جماعت کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
کمال یہ ہے کہ ،، اللہ ،، ہر وقت اپنے نمائیندوں کے ساتھ واقعی وہاں موجود ہوتا تھا۔ کسی کا کوئی بھی مسلہ ہو ، لین دین کا تنازعہ ہو ، یا کسی کے ظلم و ستم کا شکوہ ، کسی راہبری اور رھنمائی کی ضرورت ہو یا روزی روٹی کا مسئلہ، کوئی سماجی الجھن ہو یا کوئی معاشرتی مسئلہ، لوگ سیدھے اللہ کے گھر کی طرف دوڑتے،انکی الجھنوں کو سلجھنے میں بس اتنا ہی وقت لگتا تھا جتنا کہ گھر سے مسجد میں جانے میں۔
اس دور میںمیڈیا بھی نہیں تھا، ریڈیو ،ٹیلیویڑن، ٹیلیفون، لاو ¿ڈ سپیکر کچھ بھی تو نہیں تھا ، نہ مبلغین کی بھرمار، نہ بڑے بڑے مذہبی جلسے، نہ قوالی اور حمد و نعت کی بڑی بڑی محافل، نہ ذکر و تلقین کے بڑے بڑے فورم ،نہ بڑی بڑی خانقاہیں اور مدرسے ، پھر بھی ہر شخص نہائت متقی، صالح اور راست گو تھا۔
اس دور میں رنگ برنگی روشنائیوں اور سنہری حروف میں لکھے ہوئے قراان پاک کے نسخے بھی نہیں تھے ، بلکہ سادہ کاغذ پہ بھدی سی لکھائی میں لکھے ہوئے نسخے بھی گراں یاب تھے پھر بھی ہر شخص مجسم قرآن تھا قرآن کا چلتا پھرتا عملی نمونہ ! اس دور میں لوگ کاغذوں پر لکھے حروف کی بجائے ایک دوسرے کو دیکھ کر قرآن پڑھتے اور سیکھتے تھے۔
پھر بہت بعد کی بات ہے، باد شاہتیں وجود میں آئیں، ،حکمرانوں کیلیے شاہی محلات تعمیر ہوئے،امن و امان اور عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے بڑے بڑے منظم ادارے اوردین و مذھب کی گتھیاں سلجانے کے لیے بڑے بڑے مکاتیب فکر وجود میں آ گئے۔دین کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے بڑی بڑی درسگاہوں اور خانقاہوں نے جنم لیا ، درس و تبلیغ کے لیے مبلغین کی افواج نظر آنے لگیں ، ان گنت علم و دانش کی درسگاہیں، یو نیورسٹیاں بھی ہرطرف دکھائی دینے لگیں۔ مسلمانوں کی تعداد بھی لاکھوں کروڑوں تک جا پہنچی لیکن علم و دانش، عدل و انصاف، امن و امان، باہمی محبت ،بھائی چارہ ، اور قرآنی ضابطہ حیات غائب ہو گیا۔ ہر طرف بد امنی ، بد انتظامی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا، دینداری اور تقویٰ کی جگہ عیاری اور مکاری نے لے لی۔ حکمرانوں نے عوام الناس کو غلام بنا لیا۔
سادہ اور کچی مساجد گرا کر نہائت عالیشان پرشکوہ عمارتیں تعمیر کر لی گئیں ، انہیں نقش و نگار ، سونے چاندی کی تاروں اور بیش قیمت موتیوں سے مزین کیا گیا، سنگ مر مر کے فرش پر زرق برق قالین بچھائے گئے، آرام و راحت کے حصول کے لیے اسمیں ائیر کنڈیشنڈ اور ہیٹر نصب کر دیے گئے۔
لیکن لوگوں میں مساجد سے بے اعتنائی بڑھ گئی،اب لوگوں کو پکر پکڑ کر لانے کے لیے مذہبی جتھے بنائے گئے ، ترغیب دینے کے لیے یہاں طرح طرح کے تہوار بھی منائے جاتے ہیں جن میںمٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں ، عمرے کے ٹکٹ اور نقد انعا مات بھی دیے جاتے ہیں جس سے وقتی گہما گہمی تو نظر آتی ہے لیکن پھر وہی ویرانی !لوگوں کی اکثریت مساجد سے دور ہی رہتی ہے کیونکہ یہانںایک بڑی کمی نظر آتی ہے وہ یہ کہ اب لوگوں کو ،، اللہ ،، اور اسکے نمائیندے یہاں نہیں ملتے ۔انکا کوئی مسلہ یہاں اکر حل نہیں ہوتا۔ ان مساجد میں زیادہ تر تا لا پڑا رہتا ہے ، جو دن میں پانچ بار کھلتا ہے ، کچھ لوگ آتے ہیں لیکن انہیں یہاں اللہ اور اسکے نمائیندوں کی بجائے ،، زر خرید مولوی ،، ملتا ہے ، جو انکا کوئی ذاتی، گھریلو، خاندانی سماجی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور دینی مسئلہ حل کرنے کی استعداد اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب انہیں ،، اللہ اپنے گھر پر،، نہیں ملتا تو لوگ مایوس ہو کر لوٹ جاتے ہیں۔
وہ اپنے گھرمیں اب نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بھی کوئی اور گھر دیکھتے ہیں !

No comments:

Post a Comment